جناب علی رضی اللّٰہ نے فرمایا۔۔۔
عقل 2 طرح کی ہوتی ہے ایک عقل طبعی اور دوسری عقل سماعی، انسان عقل سماعی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرپاتا اگر اُس کے پاس عقل طبعی نہ ہو، یہ بلکل ایسے ہے جیسے اگر آنکھ کی بینائی نہ ہو تو سُورج کی روشنی بیکار ہے۔
جناب علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا۔۔۔جب تک کوئی بات تیرے مُنہ میں بند ہے تب تک تُم اُس کے مالک ہو اور جب تُم اُسے زبان سے ادا کرکے مُنہ سے نکال دیتے ہو تب وہ تمہاری مالک بن جاتی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا۔۔۔۔ شریف کی پہچان یہ ہے کہ جب کوئی اس کیساتھ سختی کرتا ہے تو وہ سخت ہوجاتا ہے اور جب کوئی اس کے ساتھ نرمی سے بات کرے تو وہ نرمی سے جواب دیتا ہے، اور کمینے کی پہچان یہ ہے کہ جب کوئی اُس کے ساتھ نرمی سے بات کرے تو اُس کا جواب سختی سے دیتا ہے اور سختی سے بات کرنے والے کے سامنے ڈھیلا پڑ جاتا ہے۔
بقول ڈاکٹر اقبال ( ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم۔۔۔ بزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن)۔
مولا علی علیہ السلام نے فرمایا۔۔۔ جب کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کے عیب کی تلاش میں رہتا ہے تو ایک وقت آتا ہے کہ اُسے اُس کا کوئی نہ کوئی عیب مل ہی جاتا ہے۔
شیر خُدا کا فرمان ہے۔۔۔۔ جو شخص جان بوجھ کر گمراہی کا راستہ اختیار کرے اُسے کوئی راہ راست پر نہیں لا سکتا۔
حیدر کرار نے فرمایا۔۔۔کبھی اچانک تمام کام درست ہو جاتے ہیں اور کبھی طلبگار ناکام رہتا ہے اور میں نے اللہ کو اپنے ارادوں میں ناکامی سے پہچانا۔
خیبر شکن مولا علی کا فرمان ہے۔۔۔جب کسی شخص کا علم اُس کی عقل سے زیادہ ہوجاتا ہے تو وہ علم اُس کے لیے وبال جان بن جاتا ہے۔
علم کے شہر کے کے دروازے سے اعلان ہُوا۔۔۔ صدق یقین کے ساتھ سوئے رہنا اُس نماز سے کہیں بہتر ہے جس کے پڑھنے میں یقین شامل نہ ہو۔
امام علی کا فرمان ہے۔۔۔جب عقل کامل ہو جائے تو کلام کم ہوجاتا ہے اور آدمی اکثر صیح بات کرتا ہے۔
ایک شخص نے جناب علی کرم اللہ وجہہ سے سوال کیا۔۔۔انسان مختار ہے یا مجبور۔۔۔ آپ نے جواب دیا اپنی ایک ٹانگ اُٹھاو اُس شخص نے اپنی ٹانگ اُٹھائی تب آپ نے کہا اب دوسری بھی اُٹھاو، وہ بولا میں اس سے مجبور ہُوں تو آپ نے فرمایا یہی مثال مختارذ اور مجبور کی ہے۔
0 Comments
Please don't share any spam message in comment box.